خرگوش کا گوشت کھانا اور پالنا کیسا ہے؟
آج ہم ایک ایسے سوال پر بات کرنے جارہے ہیں۔ جس کے بارے میں بہت سے بہن بھائی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ گھر کے اندر خرگوش پالنا کیسا ہے اور خرگوش کا گوشت کھانا حلال ہے یا نہیں۔ تو آج ہم آپ کو اس بارے میں تفصیل سے بتائیں گے۔
خرگوش کی بہت سی اقسام ہیں۔ کچھ اقسام کے خرگوش جسامت میں ایک چھوٹے بکری کے بچے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس قسم کے خرگوش کو بڑے سائز کے خرگوش کہا جاتا ہے۔ ان کی افزائش بہت تیزی سے ہوتی ہے۔ خرگوش حلال جانوروں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا گوشت تقریبا ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا استعمال کرتا ہے۔
اس کے گوشت کا رنگ لال ہوتا ہے۔ ذائقے میں لذیذ، تاثیر میں گرم اور جلد ہضم ہونے والا ہے. یاد رہے کہ خرگوش حلال جانور ہے اس حوالے سے آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ فقہاء کے نزدیک خرگوش چونکہ گھاس اور دانہ کھاتا ہے۔ مردار یا نجاست اس کی غذا نہیں ہے نہ ہی وہ اپنے پنجوں یا پونچھ سے شکار کرتا ہے۔ اس لیے شرعی طریق پر ذبح کر کے اس کو کھانا حلال ہے۔
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے خرگوش کا گوشت تناول فرمانا ثابت ہے۔ آئیے آپ کو خرگوش کے گوشت کے حلال ہونے کے حوالے سے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بتاتے ہیں۔ تاکہ آپ کی بہتر طور پر اصلاح ہو سکے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے خرگوش کو بھگایا اور پھر سب لوگ اس کے پیچھے دوڑتے دوڑتے تھک گئے۔
تو میں نے اسے پکڑ لیا اور لے کر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کی سرین یا دونوں رانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیں۔ ان کا بیان ہے کہ کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قبول کیا بہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم۔
دوستوں ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ خرگوش کا گوشت حلال ہے اور تمام اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خرگوش حلال جانور ہے۔ اس لیے چاہیے کہ خرگوش کا گوشت استعمال کیا جائے یہ اسلامی تعلیمات کے پیش نظر حلال ہے۔ بلکہ آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ماہرین کے مطابق خرگوش کے گوشت میں دوسرے جانوروں کے مقابلے میں پروٹین کیلشیم، وٹامنز زیادہ اور چکنائی اور سوڈیم کم پایا جاتا ہے۔ آج کل خرگوش کے بالوں سے مختلف اقسام کے ملبوسات اور دیگر اشیائے ضرورت بھی بنائی جا رہی ہیں۔
دوستو جہاں تک اس کو گھر میں پالنے کی بات ہے تو اس کو گھر میں پالا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک حلال جانور ہے۔ اور بڑی تیزی سے اپنی نسل بڑھاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مادہ خرگوش ایک بار میں دو سے آٹھ بچے پیدا کرتی ہے۔ زیادہ تر خرگوش کی اقسام زمین میں بل یا سرنگ بنا کر گرہوں کی شکل میں رہتے ہیں اس کے کان تقریبا دس سینٹی میٹر تک لمبے ہو سکتے ہیں اپنے لمبے کانوں کی وجہ سے یہ ہلکی سی آہٹ کو بھی سن لیتا ہے یہ تقریبا اپنے چاروں طرف دیکھ سکتا ہے اس کے اٹھائیس دانت ہوتے ہیں جو سامنے والے چار دانت چار اوپر والے اور چار نیچے والے کی صورت میں آگے پیچھے ہوتے ہیں۔
نر خرگوش کو bux اور مادہ خرگوش کو doze کہتے ہیں اور خرگوش کے بچے بغیر بالوں کے پیدا ہوتے ہیں اور ان کو کٹس کہا جاتا ہے۔ خرگوش سبز رنگ کے پتوں والے پودوں کو کھانا زیادہ تر پسند کرتے ہیں۔ ان کی سب سے پسندیدہ سبزی گاجر ہے۔ ہمارے ملک میں خرگوش کو شوق کے طور پر پالا جاتا ہے۔ اگر اس کو تجارتی پیمانے پر پالا جائے تو ایک اچھی آمدن کا ذریعہ بنے گا خرگوش کو بہت کم خوراک اور جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
دوستو یاد رہے کہ دنیا میں خرگوش کی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں۔ خرگوش کی اقسام میں سے آپ اپنی پسند اور تجارتی پیمانے پر پالنے کے لیے ان کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
قبر کی پہلی رات
قبر کی پہلی رات کا منظر کیسا ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی تلاش میں ہر دوسرا شخص نظر آتا ہے آج ہم اس سوال کا جواب آپ کے لیے اسلامی نقطۂ نظر سے لے کر حاضر ہوۓ ہیں اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ آخر قبر انسان کو کیسے پکارتی ہے؟ کیا یہ پکار انسان کو سنائی دیتی ہے؟
قبر کی پکار
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ قبر ہر دن اپنے مردوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے۔ میں غربت اور تنہائی کا گھر ہوں۔ مٹی اور کیڑوں کا گھر ہوں۔
جب مومن کو دفن کیا جاتا ہے۔ تو قبر اسے مرحبا کہتے ہوئے خوشخبری سناتی ہے کہ میری پشت پر چلنے والوں میں تو بڑا محبوب تھا۔ آج میں تیری ہو گئی اور تو میری طرف آ گیا۔ تو اب میرے احسان کو دیکھ لے گا یہ کہہ کر قبر تا حد نگاہ کشادہ ہو جاتی ہے۔ اور جنت کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ جہاں سے اس کو جنت کی تازہ ہوا آتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک ہوئے۔ پھر فرمایا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس بیٹھ گئے۔ اور فرمایا: یہ قبر ہر دن باآواز بلند کہتی ہے۔ اے آدم کی اولاد! تو کیوں مجھے بھول گیا؟
کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ میں تنہائی کا گھر، غربت کا گھر وحشت کا گھر، کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں۔ میں بہت تنگ گھر ہوں۔ مگر اللہ جس کے لیے کشادگی کا حکم فرمائے گا اس کے لیے کشادہ ہو جاؤں گی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قبر! تو یا تو جنت کا چمن ہے یا پھر آگ کا ایک تنور۔
حضرت ابو حجاج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردہ جب قبر میں رکھا جاتا ہے۔ تو قبر اس کو کہتی ہے اے ابن آدم تو ہلاک ہوا تجھے کس چیز نے مجھ سے دھوکے میں رکھا۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میں فتنہ، تاریکی اور کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں۔
تجھے کس چیز نے مجھ سے بہکا کر نڈر کر دیا اور تو میری پشت پر خوب اکڑ کر چلتا تھا۔ اگر وہ (مردہ) نیک ہوتا ہے۔ تو اس کی طرف سے قبر کو جواب دینے والے جواب دیتے ہیں۔ اے قبر تو دیکھ تو سہی اس کے اعمال کیسے ہیں۔ یہ اچھائی اختیار کرتا تھا اور برائی سے باز رہتا تھا۔
یہ سن کر قبر کہتی ہے بے شک یہ نیک تھا اب میں اس کے لیے سرسبز ہو جاتی ہوں۔ مردے کا جسم اس وقت منور ہو جاتا ہے اور اس کی روح اللہ تعالی کی طرف بھیج دی جاتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردہ قبر میں بیٹھتا ہے اور ان لوگوں کے پیروں کی آواز بھی سنتا ہے۔ جو اس کے جنازے کے ساتھ قبر تک گئے ہوں۔
مردے سے اس کی قبر کہتی ہے اے ابن آدم تیری ہلاکت ہو۔ تو نے میری تنگی، بدبو اور کیڑے مکوڑوں کا خوف نہیں کیا۔ اس لیے تو نے ان چیزوں سے بچنے کے لیے تیاری نہ کی۔ بد اعمال مردے سے قبر کہتی ہے تجھے میری تاریکی میری وحشت میری تنہائی اور تنگی اور میرا غم یاد نہیں رہا۔ اس کے بعد قبر اس کو جکڑ دیتی ہے۔ جس کے بعد اس کی پسلیوں کی ہڈیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں۔
جبکہ نیک بندے کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس کے دائیں ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ جہاں سے اس کو جنت کی ہوا آتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو قبر کے عذاب سے بچائے۔ اور ہم کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
ہندو عورت کا سورۂ فاتحہ پر یقین کا واقعہ
عرب کے قبیلے میں ایک غیر مسلم شادی شدہ عورت رہا کرتی تھی۔ اس کا شوہر بہت بڑا بزنس مین تھا۔ ایک مرتبہ اس نے سنا کہ ملک عرب یعنی مکہ میں اللہ کے آخری نبی جو اللہ کے محبوب نبی ہیں۔
ان پر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ جس کا نام ہے “سورۃ الفاتحہ”۔ جس میں ہر بیماری سے شفا موجود ہے۔ وہ جس پر بھی دم کی جاتی ہے یا پڑھ کر پھونکی جاتی ہے۔ وہ انسان اچھا ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں بے شمار برکات ہے۔
اس میں اب عقیدے کی بات ہے۔ مسلم ہو یا غیر مسلم اللہ پاک جس کے دل میں ایمان کی روشنی ڈالنا چاہے۔ اللہ کی قدرت کا تو آپ سب کو اندازہ ہو گا۔
اب کسی شخص سے اس عورت نے سورۃ فاتحہ سیکھ لی۔ پھر جب اس نے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ پڑھا۔ تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ جب بھی یہ سورۃ پڑھتی تھی۔ اللہ تعالی اس کے بگڑے کاموں کو سنوار دیتا۔
ایک دن اس کے بیٹے کو ایک خطرناک زہریلے بچھو نے کاٹ لیا۔ بڑے بڑے حکیموں، طبیبوں کو بلوایا گیا۔ سب نے یہ کہہ کر جان چھڑوا لی کہ اس بچھو کا زہر بہت خطرناک ہے۔ اس بچے کا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ تمہارا یہ بچہ بس کچھ ہی دیر کا مہمان ہے۔
ماں کا رو رو کر برا حال تھا اور شوہر اپنے خداؤں کی عبادت کر رہا تھا۔ ان سے مدد مانگ رہا تھا۔ پھر جب کوئی حل نہیں نکلا۔ تو اس عورت کو یاد آیا کہ سورۃ فاتحہ کے بارے میں اس نے پڑھا ہے کہ اس میں ہر بیماری سے شفا ہے۔
اس کے دل میں خیال آیا کہ اگر میں اسے پڑھ کر اپنے بچے پر دم کروں۔ تو کیا میرا بچہ ٹھیک ہو جائے گا؟ کیونکہ اللہ تعالی نے اس عورت کو ایمان کی طرف لانا تھا۔ اس کے دل میں اسلام کی محبت مزید پیدا کرنی تھی۔ تو اس کی زبان میں تاثیر دے دی۔
جب اس نے اس سورۃ کو پڑھ کر اس جگہ پر دم کیا جہاں بچھو نے کاٹا تھا۔ تو اس کا لڑکا اٹھ کر بیٹھ گیا اور جب اس نے سورۃ فاتحہ کو پانی پر دم کر کے پلایا۔ تو وہ اٹھ کر ایسے کھڑا ہو گیا جیسے کسی بچھو نے کبھی کاٹا ہی نہیں تھا۔
اس کا شوہر دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کسی طبیب نے اور کسی حکیم نے اسے ٹھیک نہیں کیا۔ تو تم نے ایسا کیا عمل کیا۔ جو یہ بچہ ٹھیک ہوگیا۔ اس نے کہا کچھ بھی تو نہیں۔ بس ایک سورۂ ہے۔ جو ہر بیماری کو ٹھیک کر دیتی ہے۔ بس وہ مجھے یاد تھی۔ میں نے پڑھ کر اپنے بچے پر دم کیا اور اس کا پانی پلایا۔
تو دیکھو کیسے ٹھیک ہوگیا ہمارا بچہ۔ اس کا شوہر بجاۓ خوش ہونے کے اس سے ناراض ہوگیا کہ یہ تم کیا جادو ٹونے کر رہی ہو۔ اس کی بیوی کہنے لگی زندہ صحیح سلامت ہے ہمارا بچہ ورنہ ہم سے بچھڑنے والا تھا۔ اس نے کچھ نہ سنا اور اپنی بیوی کو ڈانٹنے لگا۔ کیونکہ اسے اسلام سے نفرت تھی۔
جب اس کی بیوی یہی عمل کرنے لگی۔ تو اس کو اپنی بیوی سے بھی نفرت ہو گئی۔ اب اس نے اس پر ظلم کرنا شروع کر دیا۔ ہر روز اس کو مارتا پیٹتا اور کہتا کہ اب میں نے تیرے منہ سے یہ سورۂ سنی۔ تو یاد رکھنا تیری کھال کھینچ لوں گا۔ اس کو اللہ کے کلام پر بالکل یقین نہیں تھا۔ جبکہ اس کی بیوی کو اللہ کے کلام پر یقین ہو گیا۔
اب اس عورت کو اللہ تعالی نے کس طرح مدد کی یہ بھی بڑا ایمان افروز ہے۔ اس عورت کا شوہر جب گھر سے کام کرنے کے لیے نکلا۔ نکلتے وقت جب اس نے اپنا جوتا پہنا تو اس میں وہی بچھو مجود تھا۔ جس نے اس کے بیٹے کو کاٹا تھا۔ اس کے ڈنگ سے وہ بچہ تو بچ گیا۔ مگر خود نہ بچ سکا۔
کیونکہ جب بچھو نے اس کو کاٹا تو زہر پورے جسم میں پھیل گیا۔ اور تڑپ تڑپ کے وہیں دم توڑ گیا۔ خاندان میں یہ خبر پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ اب شوہر دنیا سے جا چکا تھا۔
شوہر کے مرتے ہی اس کے گھر میں تو نوبت فاقوں تک آ گئی۔ وہ عورت قرض دار ہو کر رہ گئی۔ وہ بہت پریشان تھی۔ دل میں پھر وہی بات آئی کہ میں سورۃ فاتحہ کا ورد کرتی ہوں۔ کیا پتا میری پریشانیاں بھی دور ہو جائیں۔
پھر وہ زور زور سے سورۃ فاتحہ پڑھنے لگی۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے سورۃ فاتحہ کا ورد کرتی رہی اور اتنے اعتماد اور یقین سے پڑھتی رہی۔ جس کا کوئی حساب ہی نہیں تھا۔
جب کوئی بندہ اللہ تعالی سے امید لگاتا ہے تو اللہ تعالی اپنے بندوں کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا۔ پھر یوں ہوا کہ سات دن کے اندر اندر اس کو خوشخبری مل گئی کہ اس کے کاروبار کو سنبھالنے کے لیے اس کے شوہر کا دوست آ گیا ہے۔
جب دوست کو خبر ملی کہ دوست کی بیوہ کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ تو وہ اس کی بیوہ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ فکر نہ کریں۔ وہ میرے بھائی کی طرح تھا۔ میں آپ کی مدد کروں گا اور جو بھی پریشانیاں ہیں وہ سب دور ہو جائیں گی۔
پھر اس شخص نے اس عورت کا سہارا بن کر اس کا پورا کاروبار سنبھال لیا۔ پھر دھیرے دھیرے جیسے زندگی پہلے تھی ویسے ہی ہو گئی۔ اس کے شوہر کے دوست نے اس عورت کو سورۃ فاتحہ پڑھتے ہوئے سن لیا۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیا پڑھ رہی ہیں۔
کیا یہ کوئی منتر ہے؟ جس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے بھی سکھائیے! اس پر وہ عورت کہنے لگی یہ کوئی منتر نہیں ہے۔ بلکہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید جو ان کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہے۔ یہ اس میں سے ایک سورت ہے۔ جس کا نام سورۃ فاتحہ ہے۔
پھر کہنے لگی مجھے تو اس پر بہت یقین ہے۔ میں نے کسی سے یہ سورہ فاتحہ سیکھ لی تھی اور اب میں چلتے پھرتے یہ سورت پڑھتی رہتی ہوں۔ وہ شخص کہنے لگا کہ آپ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتی۔ اگر اتنا ہی اس سورت کو مانتی ہے۔
وہ مزید کہنے لگا کہ ایک سورت کی اتنی تاثیر ہے۔ تو پورے قرآن کی کتنی تاثیر ہوگی۔ وہ عورت کہنے لگی کہ میں مسلمان تو ہو جاؤں۔ لیکن میرا شوہر نہیں مانتا تھا۔
اس شخص نے کہا کہ اب تو آپ کا شوہر بھی نہیں ہے اور ایک سورت کے ساتھ آپ کی محبت دیکھ کر میں اتنا زیادہ متاثر ہوا ہوں کہ میں بھی آپ کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ ہم دونوں قرآن مجید سیکھیں گے اور ضرور پڑھیں گے۔ وہ کہنے لگی جی! آپ نے بالکل صحیح کہا اور یوں وہ دونوں مسلمان ہوگئے۔
حضرت عیسیٰ ؑ اور لالچی شاگرد کا واقعہ
ایک دفعہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے شاگرد کے ساتھ ایک سفر پر جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ آرام کی غرض سے رکے اور شاگرد سے پوچھا تمہاری جیب میں کچھ ہے۔ شاگرد نے جواب دیا “جی میرے پاس دو درہم ہیں”۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر شاگرد کو دیا اور فرمایا یہ تین درہم ہو جائیں گے۔ قریب ہی آبادی ہے تم وہاں سے تین درہم کی روٹیاں لے آؤ۔
شاگرد چلا گیا اور راستے میں واپس آتے ہوئے سوچنے لگا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے۔ جبکہ روٹیاں تین ہیں۔ ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسی علیہ السلام کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی۔ لہذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھا لوں۔
چنانچہ اس نے راستے میں ہی ایک روٹی کھا لی اور باقی دو روٹیاں لے کر حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس پہنچا۔ حضرت عیسی علیہ السلام اور شاگرد نے جب کھانا کھالیا۔ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے شاگرد سے پوچھا کہ تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھی۔
شاگرد نے جواب دیا اے اللہ کے نبی دو روٹیاں ملی تھی۔ ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی۔ حضرت عیسی علیہ السلام خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر بعد وہاں سے روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک دریا آیا شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا اے اللہ کے نبی ہم دریا ابور کیسے کریں گے۔
جبکہ یہاں تو کوئی کشتی بھی نظر نہیں آ رہی۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا گھبراؤ مت میں آگے چلوں گا تو میرا دامن پکڑ کر پیچھے چلتے آنا۔ خدا نے چاہا تو ہم دریا پار کر لیں گے۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا۔
اللہ کے حکم سے آپ نے دریا اس طرح سے عبور کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے۔ شاگرد نے دیکھ کر کہا میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان ہوں۔ آپ جیسا صاحبہ اعجاز نبی پہلے کبھی معبوث ہی نہیں ہوا۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا یہ معجزہ دیکھ کر تیرے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا۔ شاگرد نے جواب دیا جی ہاں! میرا دل نور سے بھر گیا ہے۔ پھر حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا اگر تمہارا دل نورانی ہو چکا ہے۔ تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھی؟
شاگرد نے جواب دیا اے اللہ کے نبی روٹیاں صرف دو ہی تھی۔ پھر حضرت عیسی وہاں سے آگے چل دیے راستے میں ہرنوں کا ایک گول گزر رہا تھا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک ہرن کو اشارہ کیا۔ تو وہ آپ کے پاس چلا آیا۔ آپ نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا۔
جب دونوں گوشت کھا چکے۔ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کی کھال پر ٹھوکر مار کر کہا کہ اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا۔ ہرن زندہ ہو گیا اور واپس دوسرے ہرنوں سے جا ملا۔ شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہوگیا اور کہنے لگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور استاد عطا فرمایا۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا۔ شاگرد نے کہا اے اللہ کے نبی میرا ایمان پہلے سے دگنا ہو چکا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا پھر بتاؤ روٹیاں کتنی تھی۔ شاگرد نے پھر وہی جواب دیا اے اللہ کے نبی روٹیاں بس دو ہی تھی۔
عیسی علیہ السلام پھر آگے کی جانب چل پڑے۔ ایک جگہ پر قیام کیا۔ تو دیکھتے ہیں کہ ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ایک اینٹ میری ہے اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس آدمی کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی تھی۔
یہ سن کر شاگرد شرمندگی سے بولا تیسری روٹی میں نے کھائی تھی۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس لالچی شاگرد کو چھوڑ دیا اور جاتے ہوئے فرمایا تینوں اینٹیں تم لے جاؤ اور یہ کہہ کر عیسی علیہ السلام وہاں سے روانہ ہو گئے۔
اب لالچی شاگرد اینٹوں کے پاس بیٹھ کر یہ سوچنے لگا۔ انہیں کیسے گھر لے جایا جائے۔ اسی دوران کچھ ڈاکوؤں کا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ ایک شخص کے پاس سونے کی تین اینٹیں ہیں۔ تو انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ اور آپس میں کہنے لگے کہ اینٹیں تین ہیں اور ہم بھی تین ہیں۔ لہذا ہر ایک شخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آئے گی۔
اتفاق سے وہ تینوں ڈاکو بھی بھوکے تھے۔ انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دے کر کہا کہ شہر قریب ہی ہے۔ تم وہاں سے روٹیاں لے کر آؤ اور کھانا کھانے کے بعد ہم اپنا اپنا حصہ تقسیم کر لیں گے۔
چنانچہ وہ شخص روٹیاں لینے گیا اور دل میں سوچنے لگا۔ اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں۔ تو باقی دونوں ساتھی مر جائیں گے اور میں تینوں اینٹوں کا اکیلا مالک بن جاؤں گا۔
جبکہ دوسری طرف اس کے دونوں ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے ساتھی کو قتل کر دیں۔ تو ہمارے حصے میں ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آئے گی۔ جب ان کا تیسرا ساتھی زہر آلود روٹیاں لے کر آیا۔ تو انہوں نے منصوبے کے مطابق اس پر حملہ کر کے اس کو قتل کر دیا۔
قتل کرنے کے بعد انہوں نے خوشی میں سوچا کہ اب کھانا کھا لیں۔ ہمیں کھانا بھی زیادہ مل گیا اور سونا بھی۔ پھر جب انہوں نے روٹیاں کھائیں۔ تو وہ دونوں بھی زہر کی وجہ سے وہی مر گئے۔
پھر جب واپسی پر حضرت عیسی علیہ السلام اسی راستے سے گزرے۔ تو دیکھا کہ اینٹیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں۔ جبکہ پاس چار لاشیں پڑی ہیں۔ آپ نے یہ دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھری اور پھر فرمایا دنیا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے۔
ایک کفن چور کا عجیب واقعہ
ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہونے جا رہے تھے۔ کہ راستے میں ان کی نظر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر ایک شخص پر پڑی، جو مسلسل روئے جا رہا تھا۔
حضرت علی شیر خدا نے اس بندے سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں بہت ہی بڑا گناہ کر بیٹھا ہوں۔ مجھے اللہ تعالی کے عذاب سے ڈر لگتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا کروں۔
آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میری معافی کی سفارش فرما دیں۔ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ اس شخص کو ساتھ لے کر حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوئے۔
جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گئے۔ تو حضرت علی زار و قطار رو رہے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اے علی آپ کیوں رو رہے ہو؟
حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے پاس آ ہی رہا تھا کہ راستے میں ایک شخص کو بہت ہی زیادہ روتا ہوے دیکھا۔
تو اس کی حالت دیکھ کر مجھے بھی رونا آگیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ شخص کہاں ہے؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ شخص باہر کھڑا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو اندر آنے کی اجازت دی۔ تو وہ بندہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہو کر اتنا رویا اتنا رویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بندے سے پوچھا اے نوجوان کیا ہوا ہے؟ تم اتنا کیوں رو رہے ہو؟
اس نے جواب دیا یارسول اللہ مجھ سے بہت ہی بڑا گناہ ہو گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ تیرا گناہ بڑا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت بڑی ہے۔
اس بندے نے عرض کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا گناہ بڑا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا گناہ بڑا ہے کہ خدا کی قدرت بڑی۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا گناہ بڑا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تو نے شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ بندے نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے شرک کا ارتکاب نہیں کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے کسی بندے کو قتل کیا ہے۔
اس نے کہا کہ اے اللہ کے نبی میں نے کسی کو بھی قتل نہیں کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم نے کون سا ایسا گناہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے تم اتنا زیادہ رو رہے ہو۔
پھر اس شخص نے اپنا سارا قصہ سنایا۔ اس نے کہا یارسول اللہ میں کئی سالوں سے کفن چوری کر رہا ہوں۔ میں مردوں کے کفن چوری کر کے ان کو فروخت کیا کرتا تھا۔ اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اس سے اپنا پیٹ پالتا تھا۔
کہنے لگا کہ کچھ دن پہلے ایک لڑکی دفن کی گئی۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق اس کا کفن اتارا اور وہاں سے جانے لگا۔ تو مجھ پر شیطان غالب آگیا۔ اس نے میری نیت بدل دی۔ میں نے اس لڑکی کے ساتھ زنا کیا۔ جب میں زنا کر کے اٹھنے لگا تو میں نے ایک آواز سنی کہ جیسے وہ لڑکی بول رہی ہے۔
اے بدبخت بندے تو نے مجھے مردوں کے درمیان ننگا کیا۔ تو کل قیامت کے دن بدکاروں اور زانیوں میں تیرا شمار ہوگا۔ اللہ تجھے بھی سب کے سامنے ننگا کرے گا۔ وہ شخص کہنے لگا کہ اس لڑکی کی آواز کا مجھ پر ایسا اثر ہوا ہے کہ مجھے اب اپنے آپ پر اللہ تعالی کا غضب محسوس ہوتا ہے۔ میں خدا کی پکڑ میں ہوں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا سارا قصہ سنا۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی آنکھیں نم ہو گئیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے واقعی بہت ہی بڑا گناہ کیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جب یہ الفاظ نکلے کہ یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے۔
تو وہ شخص روتا ہوا باہر نکل گیا اس نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بہت ہی ناراض ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زبان مبارکہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو میری بربادی کا مزید سبب بن جائے۔ وہاں سے نکل کر وہ شخص جنگل اور پہاڑوں کی طرف چلا گیا۔
وہ شخص کئی روز اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہا اور اللہ تعالی سے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہا۔ اس کو ہر وقت وہ آواز سنائی دیتی تھی وہ ہر وقت اللہ تعالی سے دعائیں مانگتا رہا۔ وہ شخص کئی روز معافی مانگتا رہا تو خدا نے اس بندے کی توبہ قبول فرمائی۔ اللہ تعالی کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔ اور سلام پیش کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے والا، رزق دینے والا اور اپنی مخلوق کو معاف کرنے والا بھی میں ہی ہوں۔
تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ میں نے اس نوجوان کی توبہ قبول فرما لی ہے۔ میں نے اس کے سارے گناہوں کو معاف فرما دیا ہے۔
پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کو اس شخص کے پاس بھیجا کہ اس شخص کے پاس جا کر اس کو یہ بتاؤ کہ اللہ تعالی نے تیری توبہ قبول فرمالی ہے۔ اللہ تعالی نے تیرے سب گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔
قوم سبا پر اللہ کے عذاب کا واقعہ
اہل سرسار کی ایک قوم جسے قوم سبا بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں کے اندر زندگی گزار رہی تھی۔ یہ قوم ایک عظیم تہذیب و تمدن کی مالک تھی۔
Post
Attitude quotes in Urdu
Attitude Quotes in Urdu
Using attitude quotes in Urdu is a great approach to get in the mood. Being a good example for others is one thing, but setting a good example for oneself is quite another. If you don’t set the best example for yourself, nothing else matters. You need to have a positive outlook on yourself and other people if you wish to have a prosperous future.
Little else will do. Girls should be told that they have nothing to be ashamed of because they are making every effort to improve themselves by the best attitude quotes in Urdu. Positivity and gratitude are the finest ways to demonstrate this mindset.
Boys’ attitude quotes in Urdu should encourage them by reminding them that they can accomplish anything they set their minds to. They should be told that there are no restrictions on what they may accomplish and that nothing is off-limits.
Always put in your day’s work today. What will last forever is now. Today, you can learn a lot. By keeping these attitudes in mind, you can be sure that you are doing everything you can for your child’s future.
Below are the best attitude quotes
انسان کی تربیت کا فرق ہوتا ہے
ورنہ جو سن سکتا ہے
وہ سنا بھی سکتا ہے
باپ کی دولت پر گھمنڈ کرنے کا کیا مزا مزا تو
تب ہے جب دولت اپنی ہو اور فخر باپ کرے۔
جس معاشرے میں اچھی اور معیاری تعلیم مہنگے داموں بیچی جائیں
وہاں قوم کی فکر کرنے والوں کے بجاے
ذریعہ معاش کی فکر کرنے والے ہی پیدا ہوتے ہیں
بولنا سبکو آتا ہے بس کسی کا دماگ بولتا
کسی کا اخلاق بولتا ہے اور کسی کی زبان
جو باتیں تکلیف دیں انھیں دل میں رکھنے کی بجاے پاؤں کے نیچے رکھیں
Albert Einstein Quotes in Urdu
انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہے،نہ
کہ اس کے مطابق کیا ہونا چاہیے
میرا اس پر کامل یقین ہے کہ خدا کائنات کا نظام
چلانے کے لئے پانسہ نہیں پھینکتا
میں کبھی مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتا کیونکہ وہ فوراََہی آجاتا ہے
کامیاب شخص بننے کی کوشش نی کریں بلکہ
اصولوں کے حامل شخص بننے کی کوشش کریں
زندگی میں کامیابی اتنی حاصل کرو کے
ایک بار پیچھے موڑ کر دیکھو تو حیران رہ جائو
میں خوش رہتا ہوں کیونکہ میں کسی سے کوئی امید نہیں رکھتا